بھلایا نہ گیا
وہ اندازِ سخن ہم سے بتایا نہ گیا ،
اک رشتہ خیال تھا جو بھلایا نہ گیا ،
بسکے سکوت میں بھی طائر زیر دام ،
سوختہ اختر کا سر سے سایہ نہ گیا ،
دیکھتا ہوں منہ فرشتہ مرگ کا یوں،
نادم جس گنہ سے نجات پایا نہ گیا ،
دنیائے آب گلُ بےجا ستم گر لگے ,
رکھا تاریکی میں اُجالا بتایا نہ گیا ،
جس مجروح حال سے نکلنے لگا ،
گتھ ایسے ملال کے چھڑایا نہ گیا ،
*زر* کرتا حُسن تلافی ہے یارب ،
تابعداری میں تیرے سرجھکایا نہ گیا ۔۔۔۔۔۔
This poem is about:
Me
My community
Guide that inspired this poem:
Poetry Terms Demonstrated: